Posts

Showing posts from 2009

The mysterious Mr Safi ابن صفی

Mahmood Farooqui wrote - I have been reading Ibn-e Safi and thinking about one of the last pieces written by political scientist and activist Arvind Das in the Biblio. He was reviewing a book called, I think, the modern invention of work. Arvind had posited, roughly, that work can coexist with pleasure but what distinguishes it from a pleasurable pursuit is the discipline of work, its regimented structure, it’s time-bound, task-related and its operation in a restricted-space. One may enjoy picking newts off a plant, but it becomes work when one has to perform the task regardless of desire or mood. It is the element of compulsion, the taking away of one’s will that distinguishes work from pleasure. I was thinking of it especially because Ibn-e Safi was a great favourite when I was young but I was now re-reading him after years, at great speed, foraging the novels for ideas. In part because I was meeting a deadline and in part because I was reading him for a particular purpose,

ابن صفی

Image
ایک زمانہ تھا کہ دنیائے ادب میں "اسرار ناروی" کا نام بڑا مقبول ہو رہا تھا۔ اس جیسے ابھرتے ہوئے شاعر سے نقادانِ فن کو خاصی توقعات وابستہ ہو چلی تھیں۔ اور بقول مجنوں گورکھپوری : خانوادہ نوح ناروی کے اس سپوت کی اُٹھان بڑی خوش آئیند تھی ! عین اسی زمانے میں ، جبکہ "طغرل فرغان" کے طنزیہ و مزاحیہ شہ پارے بھی قبولیتِ عام کی سند پا رہے تھے کہ اچانک یہ دونوں نام (اسرار ناروی اور طغرل فرغان) دنیائے ادب سے ناپید ہو گئے۔ یہ ہندوستان پر سے برطانوی اقتدار ختم ہونے سے کچھ دنوں پہلے کی بات ہے۔ مندرجہ بالا دونوں نام ختم ہو جانے کے بعد ایک تیسرا نام ابھر کر سامنے آیا : ابن صفی (بی۔اے) جو جاسوسی کہانیوں کے سلسلے میں بڑا مشہور ہو رہا ہے۔ یہ تینوں نام : اسرار ناروی ، طغرل فرغان اور ابن صفی ۔۔۔ دراصل ایک ہی شخص "اسرار احمد" کے قلمی بہروپ تھے۔   پہلے دو ناموں کو اسی شخص کا تیسرا قدآور نام "ابن صفی" نگل گیا۔ صرف "ابن صفی" ہی کہنا کافی نہیں ، "بی۔اے" کا دُم چھلا بھی ساتھ لگا ہوا ہے جو ایک طرح کا تخلص ہو کر رہ گیا ہے

Ibn e Safi’s Novels are Gems of Urdu Literature

Image
This was a long overdue post and was delayed due to unavoidable reasons. The seminar on Ibn-e-Safi was held in Delhi sometime back. Eminent Urdu scholar from Germany, Christina Oesterheld said that the characters of Ibn-e-Safi’s novels live a Western lifestyle but are quintessentially Oriental when it comes to their behaviour towards women. The main characters Imran and Faridi don’t look at women as an object of sex, rather for them a woman is a symbol of purity and dignity. They treat her as equal in all regards. Dr Christina, who is the senior lecturer at Institute of South Asian Studies, Heidelberg, Germany regretted that Ibn-e-Safi’s writing was not given enough attention in comparison to so-called serious literature. The Sahitya Akademi president Dr Gopi Chand Narang questioned why ‘Jasoosi Adab’ is not considered literature and if it is not literature then why the word ‘adab’ (literature) is attached to it, during such seminars. He said that Ibn-e-Safi was published in D

About Me Remembering Ibn-e-Safi ابن صفی

Image
One of the greatest writers in history, Ibn-e-Safi, (ابن صفی) who took Urdu fiction and detective writings to dizzy heights in the decades of 50s, 60s and 70s, would be remembered at a function organised by India’s premier literary organisation, the Sahitya Akademi. Ibn-e-Safi, not only created great characters but took detective writing in Urdu to a stage where it was acknowledged internationally. For years, it was debated whether Jasoosi Adab could be termed as Adab. But it seems his immense contribution is now being recognised. Christina Oesterheld will deliver the guest lecture on Ibn-i-Safi’s novels. She is from Institute of South Asian Studies (Heidelberg) Germany and the event would be held in the Academy auditorium on March 16 at 6 pm. Asrar Ahamd Narvi alias Ibn Safi BA who wrote under several pen names wrote over 240 novels and was solely responsible for the survival of Urdu readership in Northern India after partition when Hindi was patronised and Urdu banished from s

مکڑے اپنے ہم شکل پتلے بناتے ہیں

مکڑوں کی ایک قسم ہے جو شکاریوں کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے خدوخال سے ملتا جلتا جعلی پتلا تیار کرتی ہے۔ شاید مکڑا پہلا جانور ہے جو کہ اپنے خدوخال جیسا پتلا تیار کرتا ہے۔ یہ مشاہدہ حال ہی میں اینیمل بیہیویئر نامی جرنل میں شائع ہوا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق مکڑوں کے اس عمل سے اس بات کی سمجھ آتی ہے کہ مکڑے کیوں اپنے جالوں میں عجیب و غریب شکل کی اشیاء موجود ہوتی ہیں۔ کئی جانور شکاریوں سے بچنے کی بہت سے تراکیب اپناتے ہیں لیکن کوئی جانور بھی اپنے خدوخال جتنا اور اس سے ملتا جلتا پتلا نہیں بناتا۔ تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہر مکڑا اپنے جال کو ایک ہی طریقے سے نہیں سجاتا۔ ’ہمارا خیال ہے کہ جال کی سجاوٹ مختلف طریقوں سے کی جاتی ہے اور یہ مختلف مکڑوں میں مختلف ہوتی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مکڑے اپنا جال ریشمی دھاگے سے بنتے ہیں۔ ایسا کرنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس سے جال مضبوط بنتا ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر غلطی سے کوئی بڑا جانور جال میں آ جائے تو جال ٹوٹے نہ اور تیسرا یہ کہ اس سے آپ چاروں طرف دیکھ سکتے ہیں اور شکاری کو آتے دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ دوسری قسم کے مکڑ

ایم آئی فائیو پر بلیک میل کا الزام

لندن کے رہنے والے مسلمان نوجوانوں نے جوابی جاسوسی اور حفاظتی امور کے لیے کام کرنے والی ایجنسی پر الزام لگایا ہے کہ اُس نے انہیں مخبر بنانے کے لیے بلیک میل اور ہراساں کرنے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ ان کمیونٹی کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہیں کہا گیا کہ یا تو ایم آئی فائیو کے لیے کام کرو یا ملک اور ملک سے باہر حراست کے لیے تیار ہو جاؤ۔ مسلمانوں اور صومالی پس منظر رکھنے والوں میں سماجی کام کرنے والے برطانوی پیدائشی اور شمالی لندن کے علاقے کیمڈن میں اپنی زندگی کا زیادہ حصہ گزارنے والے محمد نور کا کہنا ہے کہ برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی فائیو کا ایک ایجنٹ خود کو پوسٹ مین ظاہر کرنے والے ایک پولیس افسر کے ساتھ اس کے گھر آئے۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے نور محمد نے بتایا کہ وہ چاہتے تھے کہ وہ ان کے لیے مخبر کا کام کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ 'وہ ہم سے مخبری کروانا چاہتے تھے اور اس کے لیے بلیک میل اور ہراساں کرنے والے طریقے استعمال کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے کام کرو نہیں تو ہم کہیں گے کہ تم بنیادی طور پر ایک دہشت گرد ہو۔ ذرا سوچیں، کوئی آپ کے دروازے پر آتا ہے، آپ کو دھمکی دیتا ہے، آپ کے گھر

’حجاب کے لیے شہید خاتون‘ ، مصرسوگوار

جرمنی کی عدالت میں قتل کی گئی ایک مسلم خاتون کی لاش ان کے آبائی وطن مصر لائی گئی ہے جنہیں حجاب کے لیے شہید قرار دیا گیا ہے۔ انہیں ایک اٹھائیس سالہ جرمن شخص نے عدالت میں چاقو مار کر ہلاک کردیا تھا جسے عدالت نے خاتون کے مذہب کی توہین کرنے کا قصور وار پایا تھا۔ اکتیس برس کی مصری خاتون مروی شیربینی پر جرمن شخص ایکسل ڈبلیو نے اٹھارہ بار چاقو سے حملہ کیا تھا۔ ایکسل کو قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ شیربینی کے شوہر ایلوی عکاظ اس حملے میں شدید طور پر زخمی ہوئے تھے جو ہسپتال میں زندگی اور موت سے لڑ ہیں۔ عدالت میں حملے کے وقت انہوں نے اپنی بیوی کو بچانے کی کوشش کی تھی۔ شیربینی کو سکندریہ میں دفن کیا گیا ہے اور ان کے جنازے میں جرمن سفارت کاروں سمیت مصر کے اعلی اہلکاروں نے بھی شرکت جہاں پر سینکڑوں سوگوار بھی موجود تھے۔ شیربینی حجاب کے طور پر سکارف پہنتی تھیں جس پر ایکسل نے انہیں ’دہشتگرد‘ کہا تھا۔ اپنی مذہبی شناخت کی توہین کے خلاف شیربینی نے عدالت میں ایکسل کے خلاف مقدمہ کیا اور عدالت نے ایکسل کو قصوروار پاکر ان پر تقریبا پچاس ہزار روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ یہ واقعہ دو ہزار آٹھ کا ہے

انسانی ہڈیوں کا ٹوٹنا

طب کے مطابق ہڈی ٹوٹنے کی مختلف قسمیں ہیں۔ مثلاً پہلی قسم ہڈی کا صرف کسی ایک مقام سے ٹوٹناہے۔ آپ نے یہ بھی سنا ہوگا کہ ہڈی ٹوٹی تو نہیں مگر اس میں لکیر آگئی ہے۔ یہ ہڈی ٹوٹنے کی بہت سادہ قسم ہے جس میں ہڈی میں بال جیسی لکیرپڑجاتی ہے۔ ہڈی کا مکمل ٹوٹنا اسے کہتے ہیں جب وہ ٹوٹ کر دوسرے حصے سے الگ ہوجائے۔جب ہڈی دو سے زیادہ جگہوں سے ٹوٹتی ہے ، یا اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوجاتے ہیں تو اسے ہڈی کا بری طرح ٹوٹنا کہتے ہیں۔ اسی طرح ہڈی ٹوٹنے کی ایک اور قسم ہڈی کا مڑ جانا ہے۔ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ہڈی ٹوٹتی تو نہیں ہے بلکہ مڑ جاتی ہے۔ ایسا زیادہ تر بچوں میں ہوتا ہے۔ آپ نے شاید کبھی ،گرین سٹک فریکچر ،کا نام سنا ہو۔ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ہڈی مڑ جاتی ہے اور صرف ایک جانب سے ٹوٹتی ہے۔ اور اس کی شکل ایک پتلی لکڑی جیسی ہوجاتی ہے۔ ہڈی ٹوٹنے کی ایک اور قسم کمپاو¿نڈ کہلاتی ہے۔ ایسا اس وقت ہوتا ہےجب ہڈی جلد کو چیر دیتی ہے۔ یہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ کیونکہ اس میں ہڈی کو پہنچنے والے نقصان کے ساتھ ساتھ کھلے زخم میں جراثیم بھر جانے کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے۔ ہڈی کے ٹوٹنے سے آنے والے زخم پر جسم کے ردعمل

بینک لون

استاد:کیا بات ہے جمہورے میاں، آج تمہارا چہرہ اترا اترا سا لگ رہا ہے؟ جمہورہ:کیا بتاوں سر جی ؟جب قرضہ چڑھے گا تو چہرہ تو اترا اترا سا لگے گا ہی نہ !! استاد:تم تو مجھے تھکے تھکے سے بھی لگ رہے ہو؟ جمہورہ:جوساری زندگی میری طرح بھاگے گا وہ بھاگ بھا گ کر تھکے گا تو سہی… استاد:تم ساری زندگی بھاگ بھاگ کر تھکے ہو؟ اتنا زیادہ کہاں بھاگتے رہے ہو؟ جمہورہ:کسی کے آگے آگے اور کسی کے پیچھے پیچھے۔ استاد:لگتا ہے تمہیں بچپن سے ہی بھاگنے کی عادت پڑی ہوئی ہے۔ جمہورہ:ہاں تو اور کیا؟ ہم غریبوں کو بھاگنے کی خوب پرئکٹس کرائی جاتی ہے۔کبھی گھر سے بھاگے تو کبھی سکول سے۔ استاد:اتنا بھاگنا تھا تو ملک سے باہر بھاگ جاتے !! جمہورہ:نہیں سر جی ، ملک سے باہر بھاگنے کے لئے تو سیاستدان ہونا پرتا ہے، ہماری اتنی اوقات کہاں؟ استاد:سادے انسان ،میں بہتر روزگار کیلئے ملک سے باہر بھاگنے کی بات کر رہا ہوں۔ اچھا یہ بتاو مسئلہ کیا ہے؟ جمہورہ:سرکاری نوکری سے ریٹائر ہونے والا ہوں، سوچ رہا ہوں ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کروں گا؟ استاد:آرام ریٹائرمنٹ کے بعد آرام ہی کیا جاتا ہے۔ جمہورہ:آرام تو وہ کرتے ہیں جو اپنے گھروں میں رہتے ہیں، میرے پاس ت